بے چارہ رفیق گھر واپس آیا دورکعت نفل نماز پڑھی اللہ سے دعا مانگی کہ اے اللہ میں تو ہر سال اپنے مال کی زکوٰۃ بھی نکالتا ہوں اور جس مال کی زکوٰۃ نکل جائے اس کی آپ حفاظت فرماتے ہیں میرے مال کی حفاظت فرما کر مجھے واپس لوٹا دیجئے
دانش! دانش بیٹا کیا کررہے ہو؟ یہ تمہارے ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ دادا ابو نےسخت لہجے میں آواز دی۔
’’دادا ابو! یہ چیزیں خراب ہوگئی ہیں۔ اس لیے انہیں کوڑے کی ٹوکری میں پھینکنے جارہا ہوں‘‘ دانش نے جواب دیا۔
’’دکھاؤ!‘‘ دادا ابو نے کہا۔
دانش نے اپنے ہاتھ میں پکڑ ی ہوئی تھیلی دادا ابو کو دیدی جس میں بریانی اور سلاد وغیرہ تھی۔ دادا ابو نے سونگھ کر کہا ’’یہ تو خراب نہیں ہوئے‘ تم اسے دوسرے وقت کیلئے فریج میں رکھ دیتے۔ حیرت ہے بیٹا کہ آپ کے نزدیک رزق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘
’’دادا ابو مجھ سے کھایا نہیں گیا تھا‘‘ دانش نے اپنی صفائی پیش کی۔ ’’نہیں بیٹا! بات دراصل یہ ہے کہ تم نے آنکھ کھولی تو تمہیں زندگی کی تمام آسائشیں میسر آئیں۔ تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ سب کتنی محنت کا نتیجہ ہے۔ یہ غذا جو انتہائی بہترین ہے‘ اس کی تمہارے آگے کوئی قدر نہیں ہے۔ خیر اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ اچھا تم میرے ساتھ آؤ۔‘‘
دانش ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اکلوتا ہونے کی وجہ سے اس کو ماں باپ اور دادا بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ سکول بھی وہ اپنی گاڑی میں جاتا تھا۔دادا ابو نے اسے اپنے ساتھ لیا اور گاڑی میں جا بیٹھے ‘گاڑی اب کچے پکے راستوں پر دوڑ رہی تھی۔ دور دور تک آبادی کا کوئی نشان نظر نہیں آرہا تھا۔
اب انہیں کچھ خیمے نظر آئے اور پھر آہستہ آہستہ خیمے نزدیک آگئے۔ دادا ابو اترے۔ دانش بھی اتر گیا۔بہت ساری عورتیں‘ بچے اور بوڑھے کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے انہیں گرمی کی شدت کا کوئی احساس نہیں ہے۔ایک عورت دوڑتی ہوئی ان کے قریب آئی اور بولی: ’’صاحب! میرا بچہ دودھ پیتا ہے اور دودھ کا ڈبا اور بہت سی چیزیں برباد ہوگئی ہیں۔‘‘جب وہ چلی گئی تو ایک بوڑھا ان کے قریب آیا۔ اس نے کہا: ’’صاحب! یہ پاگل ہوگئی ہے‘ اس کی بیٹا غذا کی کمی کی وجہ سے مرگیا ہے اور اس کا شوہر بھی۔ میں اس کا باپ ہوں‘‘’’دیکھو بیٹا! تم نے ابھی زندگی کا ایک رخ دیکھا ہے۔۔۔ دوسرا نہیں۔۔۔۔ یہاں تمہیں ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جنہوں نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا۔ تمہارے ہم عمر دوست دن بھر اپنے والدین سے نامعلوم کتنا جیب خرچ لیتے ہیں اگر اس میں سے کچھ ان کو دے دیں تو یہ ایک وقت کا کھانا کھالیں۔‘‘دادا ابو کی یہ باتیں سن کر دانش کو بہت رنج ہوا۔دوسرے دن دانش دادا ابو کے کمرے میں آیا اور کہا: ’’داداجان! آج پھر اسی جگہ چلیں۔ میں نے بہت سی چیزیں‘ ایک کمبل بہت سے کپڑے اور کچھ کھانے پینے کی چیزیں جمع کی ہیں تاکہ ان لوگوں کی مدد کرسکوں۔‘‘’’واہ میرے بیٹے! تم نے میرا دل خوش کردیا‘‘ دادا ابو بولے اوروہ دونوں وہاں سے چل دئیے۔
امانت میں خیانت اور آخر شرمندگی۔۔۔
شہر کے بازار میں رفیق کی کپڑے کی دکان تھی‘ رفیق ایک نیک اور ایمان دار تاجر تھا۔وہ صبح فجر کی نماز پڑھ کر ذکر وغیرہ سے فارغ ہوکر دکان کھولتا اور جیسے ہی ظہر کی اذان ہوتی وہ دکان بند کرکے مسجد چلا جاتا۔
اللہ رب العزت نے بھی اس کے کاروبار میں برکت دی تھی رفیق کا شمار مال دار لوگوں میں ہوتا تھا۔رفیق کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں رفیق نے ایک ہزار دینار (سونے کے سکے) رکھے ہوئے تھے ایک مرتبہ رفیق کو کاروبار کے سلسلے میں دوسرے ملک جانا تھا وہ اپنے ایک قریبی دوست عامر کے پاس اپنی تھیلی لیکر گیا اور اس سے کہا کہ بھائی عامر میں کچھ عرصہ کیلئے دوسرے ملک جارہا ہوں اور تمہارے پاس اپنی ایک امانت چھوڑ کر جارہا ہوں امید ہے تم اس کی حفاظت کروگے میں واپس آکر تم سے یہ امانت لے لوں گا۔
یہ کہہ کر رفیق نے ہزار دینار (سونے کے سکے) سے بھری تھیلی عامر کے حوالے کردی‘ عامر نے وہ تھیلی حفاظت سے اپنے پاس رکھ لی۔رفیق اپنے سفر پر روانہ ہوگیا‘ دن گزرتے گئے‘ رفیق کو گئے ہوئے کئی سال ہوگئے۔اب عامر کے دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا اس نے سوچا کہ کیوں نہ میں اس تھیلی سے دینار (سونے کے سکے) نکال کر درہم (چاندی کے سکے) ڈال دوں‘ رفیق واپس آکر اگر پوچھے گا تو میں جھوٹ بول دونگا کہ تم نے تو مجھے یہی دیا تھا میں نے اس تھیلی کو کھول کر بھی نہیں دیکھا اور عامر نے اسی طرح کیا تھیلی سے دینار نکالے اور ان کی جگہ درہم رکھ دئیے۔کچھ عرصہ کے بعد رفیق واپس آگیا وہ عامر کے گھر گیا عامر اس سے بہت اچھے طریقے سے ملا اور سکوں سے بھری تھیلی رفیق کے حوالے کردی۔
رفیق نے گھر آکر تھیلی کھولی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تھیلی بجائے دینار (سونے کے سکے) کے درہم (چاندی کے سکے) سے بھری ہوئی ہے اب تو رفیق بہت پریشان ہوا۔ وہ بھاگتا ہوا عامر کے پاس گیا اور اسے ساری بات بتائی۔ عامر بہت غصہ ہوا اور کہا کہ ایک تو میں نے تم پر احسان کیا اور تمہارے مال کی حفاظت کی اور اب تم مجھ پر چوری کا الزام لگاتے ہو۔بے چارہ رفیق گھر واپس آیا دورکعت نفل نماز پڑھی اللہ سے دعا مانگی کہ اے اللہ میں تو ہر سال اپنے مال کی زکوٰۃ بھی نکالتا ہوں اور جس مال کی زکوٰۃ نکل جائے اس کی آپ حفاظت فرماتے ہیں میرے مال کی حفاظت فرما کر مجھے واپس لوٹا دیجئے اور اللہ کا نام لے کر عدالت پہنچا اور قاضی صاحب (جج) کو سارا واقعہ سنایا۔قاضی صاحب نے عامر کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ رفیق نے تمہارے پاس امانت کتنے سال پہلے رکھوائی تھی۔ اس نے کہا پانچ سال پہلے۔ اب قاضی صاحب نے تھیلی کھولی اور سکوں کو باہر نکالا اور عامر سے کہا کہ تم کہتے ہو کہ یہ سکے رفیق نے تمہارے پاس پانچ سال پہلے رکھوائے تھے جبکہ ان سکوں پر ان کے بننے کی تاریخ دو سال پہلے کی لکھی ہوئی ہے اس کا مطلب ہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو اب جلدی سے رفیق کا مال اس کے حوالے کردو اور سزا کیلئے تیار ہوجاؤ۔ عامر نے شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیا اور اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے رفیق کا مال اس کے حوالے کردیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں